EN हिंदी
بیخود دہلوی شیاری | شیح شیری

بیخود دہلوی شیر

71 شیر

دل چرا کر لے گیا تھا کوئی شخص
پوچھنے سے فائدہ، تھا کوئی شخص

بیخود دہلوی




اپنے جلوے کا وہ خود آپ تماشائی ہے
آئینے اس نے لگا رکھے ہیں دیواروں میں

بیخود دہلوی




اے شیخ آدمی کے بھی درجے ہیں مختلف
انسان ہیں ضرور مگر واجبی سے آپ

بیخود دہلوی




ادائیں دیکھنے بیٹھے ہو کیا آئینہ میں اپنی
دیا ہے جس نے تم جیسے کو دل اس کا جگر دیکھو

بیخود دہلوی




اب آپ کوئی کام سکھا دیجئے ہم کو
معلوم ہوا عشق کے قابل تو نہیں ہم

بیخود دہلوی




آپ شرما کے نہ فرمائیں ہمیں یاد نہیں
غیر کا ذکر ہے یہ آپ کی روداد نہیں

بیخود دہلوی




آپ کو رنج ہوا آپ کے دشمن روئے
میں پشیمان ہوا حال سنا کر اپنا

بیخود دہلوی




آپ ہوں ہم ہوں مئے ناب ہو تنہائی ہو
دل میں رہ رہ کے یہ ارمان چلے آتے ہیں

بیخود دہلوی




آئنہ دیکھ کے خورشید پہ کرتے ہیں نظر
پھر چھپا لیتے ہیں وہ چہرۂ انور اپنا

بیخود دہلوی