میرے اندر کوئی تکتا رہا رستہ اس کا
میں ہمیشہ کے لئے رہ گئی چلمن بن کے
عزیز بانو داراب وفا
میرے اندر ایک دستک سی کہیں ہوتی رہی
زندگی اوڑھے ہوئے میں بے خبر سوتی رہی
عزیز بانو داراب وفا
مر کے خود میں دفن ہو جاؤں گی میں بھی ایک دن
سب مجھے ڈھونڈیں گے جب میں راستہ ہو جاؤں گی
عزیز بانو داراب وفا
میں اس کی دھوپ ہوں جو میرا آفتاب نہیں
یہ بات خود پہ میں کس طرح آشکار کروں
عزیز بانو داراب وفا
میں اس کے سامنے عریاں لگوں گی دنیا کو
وہ میرے جسم کو میرا لباس کر دے گا
عزیز بانو داراب وفا
میں شاخ سبز ہوں مجھ کو اتار کاغذ پر
مری تمام بہاروں کو بے خزاں کر دے
عزیز بانو داراب وفا
میں روشنی ہوں تو میری پہنچ کہاں تک ہے
کبھی چراغ کے نیچے بکھر کے دیکھوں گی
عزیز بانو داراب وفا
میں پھوٹ پھوٹ کے روئی مگر مرے اندر
بکھیرتا رہا بے ربط قہقہے کوئی
عزیز بانو داراب وفا
میں نے یے سوچ کے بوئے نہیں خوابوں کے درخت
کون جنگل میں اگے پیڑ کو پانی دے گا
عزیز بانو داراب وفا