یہ حوصلہ بھی کسی روز کر کے دیکھوں گی
اگر میں زخم ہوں اس کا تو بھر کے دیکھوں گی
کسی طرف کوئی زینہ نظر نہیں آتا
میں اس کے ذہن میں کیوں کر اتر کے دیکھوں گی
میں روشنی ہوں تو میری پہنچ کہاں تک ہے
کبھی چراغ کے نیچے بکھر کے دیکھوں گی
سنا دوراہے پہ امید کے سرائے ہے ایک
میں اپنی راہ اسی میں ٹھہر کے دیکھوں گی
غزل
یہ حوصلہ بھی کسی روز کر کے دیکھوں گی
عزیز بانو داراب وفا