لگائے پیٹھ بیٹھی سوچتی رہتی تھی میں جس سے
وہی دیوار لفظوں کی اچانک آ رہی مجھ پر
عزیز بانو داراب وفا
کریدتا ہے بہت راکھ میرے ماضی کی
میں چوک جاؤں تو وہ انگلیاں جلا لے گا
عزیز بانو داراب وفا
کوئی موسم میری امیدوں کو راس آیا نہیں
فصل اندھیاروں کی کاٹی اور دیئے بوتی رہی
عزیز بانو داراب وفا
آئینہ خانے میں کھینچے لئے جاتا ہے مجھے
کون میری ہی عدالت میں بلاتا ہے مجھے
عزیز بانو داراب وفا
خواب دروازوں سے داخل نہیں ہوتے لیکن
یہ سمجھ کر بھی وہ دروازہ کھلا رکھے گا
عزیز بانو داراب وفا
کہنے والا خود تو سر تکیے پہ رکھ کر سو گیا
میری بے چاری کہانی رات بھر روتی رہی
عزیز بانو داراب وفا
جن کو دیوار و در بھی ڈھک نہ سکے
اس قدر بے لباس ہیں کچھ لوگ
عزیز بانو داراب وفا
جب کسی رات کبھی بیٹھ کے مے خانے میں
خود کو بانٹے گا تو دے گا مرا حصہ مجھ کو
عزیز بانو داراب وفا
جانے کتنے راز کھلیں جس دن چہروں کی راکھ دھلے
لیکن سادھو سنتوں کو دکھ دے کر پاپ کمائے کون
عزیز بانو داراب وفا