EN हिंदी
میں اس کی بات کے لہجے کا اعتبار کروں | شیح شیری
main uski baat ke lahje ka etibar karun

غزل

میں اس کی بات کے لہجے کا اعتبار کروں

عزیز بانو داراب وفا

;

میں اس کی بات کے لہجے کا اعتبار کروں
کروں کہ اس کا نہ میں آج انتظار کروں

میں صرف سایہ ہوں اپنا مگر یہ ضد ہے مجھے
کہ اپنے آپ کو خود سے الگ شمار کروں

عجب مزاج ہے اس کا بھی چاہتا ہے کہ میں
بطور وضع فقط خود کو اختیار کروں

میں اک اتھاہ سمندر ہوں اس خیال میں غرق
کہ ڈوب جاؤں میں خود میں کہ خود کو پار کروں

خود اپنے آپ سے ملنے کے واسطے پہلے
میں اپنے آپ کو دریا سے آبشار کروں

میں اس کی دھوپ ہوں جو میرا آفتاب نہیں
یہ بات خود پہ میں کس طرح آشکار کروں

کسی قدیم کہانی میں ایک مدت سے
وہ سو رہا ہے کہ میں اس کو ہوشیار کروں

پھر ایک آس کی چلمن سے عمر بھر لگ کے
خود اپنے پاؤں کی آہٹ کا انتظار کروں