گئے موسم میں میں نے کیوں نہ کاٹی فصل خوابوں کی
میں اب جاگی ہوں جب پھل کھو چکے ہیں ذائقہ اپنا
عزیز بانو داراب وفا
فسانہ در فسانہ پھر رہی ہے زندگی جب سے
کسی نے لکھ دیا ہے طاق نسیاں پر پتہ اپنا
عزیز بانو داراب وفا
ایک مدت سے خیالوں میں بسا ہے جو شخص
غور کرتے ہیں تو اس کا کوئی چہرہ بھی نہیں
عزیز بانو داراب وفا
ہماری بے بسی شہروں کی دیواروں پہ چپکی ہے
ہمیں ڈھونڈے گی کل دنیا پرانے اشتہاروں میں
عزیز بانو داراب وفا
چراغوں نے ہمارے سائے لمبے کر دیئے اتنے
سویرے تک کہیں پہنچیں گے اب اپنے برابر ہم
عزیز بانو داراب وفا
چراغ بن کے جلی تھی میں جس کی محفل میں
اسے رلا تو گیا کم سے کم دھواں میرا
عزیز بانو داراب وفا
چمن پہ بس نہ چلا ورنہ یہ چمن والے
ہوائیں بیچتے نیلام رنگ و بو کرتے
عزیز بانو داراب وفا
بجھا کے رکھ گیا ہے کون مجھ کو طاق نسیاں پر
مجھے اندر سے پھونکے دے رہی ہے روشنی میری
عزیز بانو داراب وفا
بچھڑ کے بھیڑ میں خود سے حواسوں کا وہ عالم تھا
کہ منہ کھولے ہوئے تکتی رہیں پرچھائیاں ہم کو
عزیز بانو داراب وفا