وہ اک نظر سے مجھے بے اساس کر دے گا
مرے یقین کو میرا قیاس کر دے گا
میں جب بھی اس کی اداسی سے اوب جاؤں گی
تو یوں ہنسے گا کہ مجھ کو اداس کر دے گا
ملا کے مجھ سے نگاہیں وہ میری نظروں کے
ذرا سی دیر میں خالی گلاس کر دے گا
پھر اس طرح سے رہے گا مرے خیالوں میں
کہ میری پیاس کو دریا کی پیاس کر دے گا
میں اس کی گرد ہٹاتے ہوئے بھی ڈرتی ہوں
وہ آئینہ ہے مجھے خود شناس کر دے گا
میں اس کے سامنے عریاں لگوں گی دنیا کو
وہ میرے جسم کو میرا لباس کر دے گا
وہ ماہتاب صفت صرف روشنی ہی نہیں
مجھی کو رات کا منظر بھی خاص کر دے گا
غزل
وہ اک نظر سے مجھے بے اساس کر دے گا
عزیز بانو داراب وفا