ایک مدت سے خیالوں میں بسا ہے جو شخص
غور کرتے ہیں تو اس کا کوئی چہرہ بھی نہیں
عزیز بانو داراب وفا
آئینہ خانے میں کھینچے لئے جاتا ہے مجھے
کون میری ہی عدالت میں بلاتا ہے مجھے
عزیز بانو داراب وفا
چراغوں نے ہمارے سائے لمبے کر دیئے اتنے
سویرے تک کہیں پہنچیں گے اب اپنے برابر ہم
عزیز بانو داراب وفا
چراغ بن کے جلی تھی میں جس کی محفل میں
اسے رلا تو گیا کم سے کم دھواں میرا
عزیز بانو داراب وفا
چمن پہ بس نہ چلا ورنہ یہ چمن والے
ہوائیں بیچتے نیلام رنگ و بو کرتے
عزیز بانو داراب وفا
بجھا کے رکھ گیا ہے کون مجھ کو طاق نسیاں پر
مجھے اندر سے پھونکے دے رہی ہے روشنی میری
عزیز بانو داراب وفا
بچھڑ کے بھیڑ میں خود سے حواسوں کا وہ عالم تھا
کہ منہ کھولے ہوئے تکتی رہیں پرچھائیاں ہم کو
عزیز بانو داراب وفا
اپنی ہستی کا کچھ احساس تو ہو جائے مجھے
اور نہیں کچھ تو کوئی مار ہی ڈالے مجھ کو
عزیز بانو داراب وفا
اہمیت کا مجھے اپنی بھی تو اندازہ ہے
تم گئے وقت کی مانند گنوا دو مجھ کو
عزیز بانو داراب وفا