اپنی ہستی کا کچھ احساس تو ہو جائے مجھے
اور نہیں کچھ تو کوئی مار ہی ڈالے مجھ کو
عزیز بانو داراب وفا
اہمیت کا مجھے اپنی بھی تو اندازہ ہے
تم گئے وقت کی مانند گنوا دو مجھ کو
عزیز بانو داراب وفا
آج کم از کم خوابوں ہی میں مل کے پی لیتے ہیں، کل
شاید خوابوں میں بھی خالی پیمانے ٹکرائیں لوگ
عزیز بانو داراب وفا
کسی جنم میں جو میرا نشاں ملا تھا اسے
پتا نہیں کہ وہ کب اس نشان تک پہنچا
عزیز بانو داراب وفا
میں کس زبان میں اس کو کہاں تلاش کروں
جو میری گونج کا لفظوں سے ترجمہ کر دے
عزیز بانو داراب وفا
میں جب بھی اس کی اداسی سے اوب جاؤں گی
تو یوں ہنسے گا کہ مجھ کو اداس کر دے گا
عزیز بانو داراب وفا
میں بھی ساحل کی طرح ٹوٹ کے بہہ جاتی ہوں
جب صدا دے کے بلاتا ہے سمندر مجھ کو
عزیز بانو داراب وفا
میں اپنے جسم میں رہتی ہوں اس تکلف سے
کہ جیسے اور کسی دوسرے کے گھر میں ہوں
عزیز بانو داراب وفا
میں اپنے آپ سے ٹکرا گئی تھی خیر ہوئی
کہ آ گیا مری قسمت سے درمیان میں وہ
عزیز بانو داراب وفا