میرے اندر ایک دستک سی کہیں ہوتی رہی
زندگی اوڑھے ہوئے میں بے خبر سوتی رہی
کوئی موسم میری امیدوں کو راس آیا نہیں
فصل اندھیاروں کی کاٹی اور دیے بوتی رہی
کہنے والا خود تو سر تکیے پہ رکھ کر سو گیا
میری بے چاری کہانی رات بھر روتی رہی
راستے میں اس قدر یادوں کے دوراہے پڑے
آج ماضی کی سڑک ہر موڑ پر کھوتی رہی
غزل
میرے اندر ایک دستک سی کہیں ہوتی رہی
عزیز بانو داراب وفا