EN हिंदी
میرے اندر ایک دستک سی کہیں ہوتی رہی | شیح شیری
mere andar ek dastak si kahin hoti rahi

غزل

میرے اندر ایک دستک سی کہیں ہوتی رہی

عزیز بانو داراب وفا

;

میرے اندر ایک دستک سی کہیں ہوتی رہی
زندگی اوڑھے ہوئے میں بے خبر سوتی رہی

کوئی موسم میری امیدوں کو راس آیا نہیں
فصل اندھیاروں کی کاٹی اور دیے بوتی رہی

کہنے والا خود تو سر تکیے پہ رکھ کر سو گیا
میری بے چاری کہانی رات بھر روتی رہی

راستے میں اس قدر یادوں کے دوراہے پڑے
آج ماضی کی سڑک ہر موڑ پر کھوتی رہی