دفعتاً ترک تعلق میں بھی رسوائی ہے
الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر
آرزو لکھنوی
آپ اپنے سے برہمی کیسی
میں نہیں کوئی اور ہے یہ بھی
آرزو لکھنوی
بری سرشت نہ بدلی جگہ بدلنے سے
چمن میں آ کے بھی کانٹا گلاب ہو نہ سکا
آرزو لکھنوی
بھولی باتوں پہ تیری دل کو یقیں
پہلے آتا تھا اب نہیں آتا
آرزو لکھنوی
بھولے بن کر حال نہ پوچھ بہتے ہیں اشک تو بہنے دو
جس سے بڑھے بے چینی دل کی ایسی تسلی رہنے دو
آرزو لکھنوی
برسوں بھٹکا کیا اور پھر بھی نہ ان تک پہنچا
گھر تو معلوم تھا رستہ مجھے معلوم نہ تھا
آرزو لکھنوی
اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی
رات کے آخر ہوتے ہوتے ختم تھا یہ افسانہ بھی
آرزو لکھنوی
اپنی اپنی گردش رفتار پوری کر تو لیں
دو ستارے پھر کسی دن ایک جا ہو جائیں گے
آرزو لکھنوی
اللہ اللہ حسن کی یہ پردہ داری دیکھیے
بھید جس نے کھولنا چاہا وہ دیوانہ ہوا
آرزو لکھنوی