EN हिंदी
آرزو لکھنوی شیاری | شیح شیری

آرزو لکھنوی شیر

78 شیر

جو دل رکھتے ہیں سینے میں وہ کافر ہو نہیں سکتے
محبت دین ہوتی ہے وفا ایمان ہوتی ہے

آرزو لکھنوی




جتنے حسن آباد میں پہونچے ہوش و خرد کھو کر پہونچے
مال بھی تو اتنے کا نہیں اب جتنا کچھ محصول پڑا

آرزو لکھنوی




جس قدر نفرت بڑھائی اتنی ہی قربت بڑھی
اب جو محفل میں نہیں ہے وہ تمہارے دل میں ہے

آرزو لکھنوی




جذب نگاہ شعبدہ گر دیکھتے رہے
دنیا انہیں کی تھی وہ جدھر دیکھے رہے

آرزو لکھنوی




جواب دینے کے بدلے وہ شکل دیکھتے ہیں
یہ کیا ہوا مرے چہرے کو عرض حال کے بعد

آرزو لکھنوی




جواب دینے کے بدلے وہ شکل دیکھتے ہیں
یہ کیا ہوا میرے چہرے کو عرض حال کے بعد

آرزو لکھنوی




آپ اپنے سے برہمی کیسی
میں نہیں کوئی اور ہے یہ بھی

آرزو لکھنوی




حسن و عشق کی لاگ میں اکثر چھیڑ ادھر سے ہوتی ہے
شمع کی شعلہ جب لہرائی اڑ کے چلا پروانہ بھی

آرزو لکھنوی




ہوش و بے ہوشی کی منزل ایک ہے رستے جدا
خشک و تر سارے جہاں کا لب بہ لب ساحل میں ہے

آرزو لکھنوی