برسوں بھٹکا کیا اور پھر بھی نہ ان تک پہنچا
گھر تو معلوم تھا رستہ مجھے معلوم نہ تھا
آرزو لکھنوی
اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی
رات کے آخر ہوتے ہوتے ختم تھا یہ افسانہ بھی
آرزو لکھنوی
اپنی اپنی گردش رفتار پوری کر تو لیں
دو ستارے پھر کسی دن ایک جا ہو جائیں گے
آرزو لکھنوی
اللہ اللہ حسن کی یہ پردہ داری دیکھیے
بھید جس نے کھولنا چاہا وہ دیوانہ ہوا
آرزو لکھنوی
آرزوؔ جام لو جھجک کیسی
پی لو اور دہشت گناہ گئی
آرزو لکھنوی
اس چھیڑ میں بنتے ہیں ہشیار بھی دیوانے
لہرایا جہاں شعلہ اندھے ہوئے پروانے
آرزو لکھنوی
کہہ کے یہ اور کچھ کہا نہ گیا
کہ مجھے آپ سے شکایت ہے
آرزو لکھنوی
جوش جنوں میں وہ ترے وحشی کا چیخنا
بند اپنے ہاتھ سے در زنداں کیے ہوئے
آرزو لکھنوی
جو کان لگا کر سنتے ہیں کیا جانیں رموز محبت کے
اب ہونٹ نہیں ہلنے پاتے اور پہروں باتیں ہوتی ہیں
آرزو لکھنوی