کس کام کی ایسی سچائی جو توڑ دے امیدیں دل کی
تھوڑی سی تسلی ہو تو گئی مانا کہ وہ بول کے جھوٹ گیا
آرزو لکھنوی
کس گل کی بو ہے دامن دل میں بسی ہوئی
چلتی ہے چھیڑتی ہوئی باد صبا مجھے
آرزو لکھنوی
خوشبو کہیں چھپی ہے محبت کے پھول کی
لی ایک سانس اور گلی تک مہک گئی
آرزو لکھنوی
خزاں کا بھیس بنا کر بہار نے مارا
مجھے دورنگئ لیل و نہار نے مارا
آرزو لکھنوی
خموشی میری معنی خیز تھی اے آرزو کتنی
کہ جس نے جیسا چاہا ویسا افسانہ بنا ڈالا
آرزو لکھنوی
خموش جلنے کا دل کے کوئی گواہ نہیں
کہ شعلہ سرخ نہیں ہے دھواں سیاہ نہیں
آرزو لکھنوی
خالی نہ عندلیب کا سوز نفس گیا
وہ لو چلی کہ رنگ گلوں کا جھلس گیا
آرزو لکھنوی
کر پہلے دل پہ قابو جامے کی پھر خبر لے
دامن بچانے والے جاتی ہے آستیں بھی
آرزو لکھنوی
کم نہ تھی تیغ سے ادائے خرام
دوست دشمن کی شان سے نکلا
آرزو لکھنوی