نظر بچا کے جو آنسو کئے تھے میں نے پاک
خبر نہ تھی یہی دھبے بنیں گے دامن کے
آرزو لکھنوی
نہیں وہ اگلی سی رونق دیار ہستی کی
تباہ کن کوئی طوفان تھا شباب نہ تھا
آرزو لکھنوی
نام منصور کا قسمت نے اچھالا ورنہ
ہے یہاں کون سا حق گو کہ سر دار نہیں
آرزو لکھنوی
دفعتاً ترک تعلق میں بھی رسوائی ہے
الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر
آرزو لکھنوی
حد سے ٹکراتی ہے جو شے وہ پلٹتی ہے ضرور
خود بھی روئیں گے غریبوں کو رلانے والے
آرزو لکھنوی
ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر
اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی
آرزو لکھنوی
فضا محدود کب ہے اے دل وحشی فلک کیسا
نلاہٹ ہے نظر کی دیکھتے ہیں جو نگاہوں سے
آرزو لکھنوی
ایک دل پتھر بنے اور ایک دل بن جائے موم
آخر اتنا فرق کیوں تقسیم آب و گل میں ہے
آرزو لکھنوی
دوست نے دل کو توڑ کے نقش وفا مٹا دیا
سمجھے تھے ہم جسے خلیل کعبہ اسی نے ڈھا دیا
آرزو لکھنوی