نالے ہیں دلستاں تو پھر آہیں ہیں برچھیاں تو پھر
ہم تو خموش بیٹھے تھے آپ نے کیوں ستا دیا
آرزو لکھنوی
کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی
جھوم کے آئی گھٹا ٹوٹ کے برسا پانی
آرزو لکھنوی
کچھ کہتے کہتے اشاروں میں شرما کے کسی کا رہ جانا
وہ میرا سمجھ کر کچھ کا کچھ جو کہنا نہ تھا سب کہہ جانا
آرزو لکھنوی
کچھ تو مل جائے لب شیریں سے
زہر کھانے کی اجازت ہی سہی
آرزو لکھنوی
لالچ بھری محبت نظروں سے گر نہ جائے
بد اعتقاد دل کی جھوٹی نماز ہو کر
آرزو لکھنوی
معصوم نظر کا بھولا پن للچا کے لبھانا کیا جانے
دل آپ نشانہ بنتا ہے وہ تیر چلانا کیا جانے
آرزو لکھنوی
مخرب کار ہوئی جوش میں خود عجلت کار
پیچھے ہٹ جائے گی منزل مجھے معلوم نہ تھا
آرزو لکھنوی
مثال شمع اپنی آگ میں کیا آپ جل جاؤں
قصاص خامشی لے گی کہاں تک اے زباں مجھ سے
آرزو لکھنوی
محبت نیک و بد کو سوچنے دے غیر ممکن ہے
بڑھی جب بے خودی پھر کون ڈرتا ہے گناہوں سے
آرزو لکھنوی