دو تند ہواؤں پر بنیاد ہے طوفاں کی
یا تم نہ حسیں ہوتے یا میں نہ جواں ہوتا
آرزو لکھنوی
دل کی ضد اس لئے رکھ لی تھی کہ آ جائے قرار
کل یہ کچھ اور کہے گا مجھے معلوم نہ تھا
آرزو لکھنوی
دھارے سے کبھی کشتی نہ ہٹی اور سیدھی گھاٹ پر آ پہنچی
سب بہتے ہوئے دریاؤں کے کیا دو ہی کنارے ہوتے ہیں
آرزو لکھنوی
دیکھیں محشر میں ان سے کیا ٹھہرے
تھے وہی بت وہی خدا ٹھہرے
آرزو لکھنوی
ہے محبت ایسی بندھی گرہ جو نہ ایک ہاتھ سے کھل سکے
کوئی عہد توڑے کرے دغا مرا فرض ہے کہ وفا کروں
آرزو لکھنوی
چٹکی جو کلی کوئل کوکی الفت کی کہانی ختم ہوئی
کیا کس نے کہی کیا تو نے سنی یہ بات زمانہ کیا جانے
آرزو لکھنوی
بری سرشت نہ بدلی جگہ بدلنے سے
چمن میں آ کے بھی کانٹا گلاب ہو نہ سکا
آرزو لکھنوی
بھولی باتوں پہ تیری دل کو یقیں
پہلے آتا تھا اب نہیں آتا
آرزو لکھنوی
بھولے بن کر حال نہ پوچھ بہتے ہیں اشک تو بہنے دو
جس سے بڑھے بے چینی دل کی ایسی تسلی رہنے دو
آرزو لکھنوی