EN हिंदी
آرزو لکھنوی شیاری | شیح شیری

آرزو لکھنوی شیر

78 شیر

ہر ٹوٹے ہوئے دل کی ڈھارس ہے ترا وعدہ
جڑتے ہیں اسی مے سے درکے ہوئے پیمانے

آرزو لکھنوی




ہر نفس اک شراب کا ہو گھونٹ
زندگانی حرام ہے ورنہ

آرزو لکھنوی




ہر اک شام کہتی ہے پھر صبح ہوگی
اندھیرے میں سورج نظر آ رہا ہے

آرزو لکھنوی




ہماری ناکامیٔ وفا نے زمانے کی کھول دی ہیں آنکھیں
چراغ کب کا بجھا پڑا ہے مگر اندھیرا کہیں نہیں ہے

آرزو لکھنوی




ہم کو اتنا بھی رہائی کی خوشی میں نہیں ہوش
ٹوٹی زنجیر کہ خود پاؤں ہمارا ٹوٹا

آرزو لکھنوی




ہلکا تھا ندامت سے سرمایہ عبادت کا
اک قطرے میں بہہ نکلے تسبیح کے سو دانے

آرزو لکھنوی