EN हिंदी
عالم خورشید شیاری | شیح شیری

عالم خورشید شیر

24 شیر

عشق میں تہذیب کے ہیں اور ہی کچھ فلسفے
تجھ سے ہو کر ہم خفا خود سے خفا رہنے لگے

عالم خورشید




آئے ہو نمائش میں ذرا دھیان بھی رکھنا
ہر شے جو چمکتی ہے چمک دار نہیں ہے

عالم خورشید




ہاتھ پکڑ لے اب بھی تیرا ہو سکتا ہوں میں
بھیڑ بہت ہے اس میلے میں کھو سکتا ہوں میں

عالم خورشید




گزشتہ رت کا امیں ہوں نئے مکان میں بھی
پرانی اینٹ سے تعمیر کرتا رہتا ہوں

عالم خورشید




دل روتا ہے چہرا ہنستا رہتا ہے
کیسا کیسا فرض نبھانا ہوتا ہے

عالم خورشید




چاروں طرف ہیں شعلے ہمسائے جل رہے ہیں
میں گھر میں بیٹھا بیٹھا بس ہاتھ مل رہا ہوں

عالم خورشید




بہت سکون سے رہتے تھے ہم اندھیرے میں
فساد پیدا ہوا روشنی کے آنے سے

عالم خورشید




اپنی کہانی دل میں چھپا کر رکھتے ہیں
دنیا والوں کو حیران نہیں کرتے

عالم خورشید




اہل ہنر کی آنکھوں میں کیوں چبھتا رہتا ہوں
میں تو اپنی بے ہنری پر ناز نہیں کرتا

عالم خورشید