ہاتھ پکڑ لے اب بھی تیرا ہو سکتا ہوں میں
بھیڑ بہت ہے اس میلے میں کھو سکتا ہوں میں
پیچھے چھوٹے ساتھی مجھ کو یاد آ جاتے ہیں
ورنہ دوڑ میں سب سے آگے ہو سکتا ہوں میں
کب سمجھیں گے جن کی خاطر پھول بچھاتا ہوں
راہ گزر میں کانٹے بھی تو بو سکتا ہوں میں
اک چھوٹا سا بچہ مجھ میں اب تک زندہ ہے
چھوٹی چھوٹی بات پہ اب بھی رو سکتا ہوں میں
سناٹے میں دہشت ہر پل گونجا کرتی ہے
اس جنگل میں چین سے کیسے سو سکتا ہوں میں
سوچ سمجھ کر چٹانوں سے الجھا ہوں ورنہ
بہتی گنگا میں ہاتھوں کو دھو سکتا ہوں میں
غزل
ہاتھ پکڑ لے اب بھی تیرا ہو سکتا ہوں میں
عالم خورشید