EN हिंदी
ہر گھر میں کوئی تہہ خانہ ہوتا ہے | شیح شیری
har ghar mein koi tah-KHana hota hai

غزل

ہر گھر میں کوئی تہہ خانہ ہوتا ہے

عالم خورشید

;

ہر گھر میں کوئی تہہ خانہ ہوتا ہے
تہہ خانے میں اک افسانہ ہوتا ہے

کسی پرانی الماری کے خانوں میں
یادوں کا انمول خزانہ ہوتا ہے

رات گئے اکثر دل کے ویرانوں میں
اک سائے کا آنا جانا ہوتا ہے

بڑھتی جاتی ہے بے چینی ناخن کی
جیسے جیسے زخم پرانا ہوتا ہے

دل روتا ہے چہرا ہنستا رہتا ہے
کیسا کیسا فرض نبھانا ہوتا ہے

زندہ رہنے کی خاطر ان آنکھوں میں
کوئی نہ کوئی خواب سجانا ہوتا ہے

تنہائی کا زہر تو وہ بھی پیتے ہیں
جن لوگوں کے ساتھ زمانہ ہوتا ہے

صحرا سے بستی میں آ کر بھید کھلا
دل کے اندر ہی ویرانہ ہوتا ہے

سرمستی میں یاد نہیں رکھتا کوئی
بزم سے اٹھ کر واپس جانا ہوتا ہے