EN हिंदी
ترے خیال کو زنجیر کرتا رہتا ہوں | شیح شیری
tere KHayal ko zanjir karta rahta hun

غزل

ترے خیال کو زنجیر کرتا رہتا ہوں

عالم خورشید

;

ترے خیال کو زنجیر کرتا رہتا ہوں
میں اپنے خواب کی تعبیر کرتا رہتا ہوں

تمام رنگ ادھورے لگے ترے آگے
سو تجھ کو لفظ میں تصویر کرتا رہتا ہوں

جو بات دل سے زباں تک سفر نہیں کرتی
اسی کو شعر میں تحریر کرتا رہتا ہوں

دکھوں کو اپنے چھپاتا ہوں میں دفینوں سا
مگر خوشی کو ہمہ گیر کرتا رہتا ہوں

گزشتہ رت کا امیں ہوں نئے مکان میں بھی
پرانی اینٹ سے تعمیر کرتا رہتا ہوں

مجھے بھی شوق ہے دنیا کو زیر کرنے کا
میں اپنے آپ کو تسخیر کرتا رہتا ہوں

زمین ہے کہ بدلتی نہیں کبھی محور
میں کیسی کیسی تدابیر کرتا رہتا ہوں

جو میں ہوں اس کو چھپاتا ہوں سارے عالم سے
جو میں نہیں ہوں وہ تشہیر کرتا رہتا ہوں