نئے سرے سے کوئی سفر آغاز نہیں کرتا
جانے کیوں اب دل میرا پرواز نہیں کرتا
کتنی بری عادت ہے میں خاموش ہی رہتا ہوں
جب تک مجھ سے کوئی سخن آغاز نہیں کرتا
کیسے زندہ رہتا ہوں میں زہر کو پی کر اب
دیوار و در کو بھی تو ہم راز نہیں کرتا
تازہ ہوا کے جھونکے اکثر آتے رہتے ہیں
آخر کیوں میں اپنے دریچے باز نہیں کرتا
جانے کیسا راگ بجانا سیکھ لیا دل نے
میری سنگت اب کوئی دم ساز نہیں کرتا
اہل ہنر کی آنکھوں میں کیوں چبھتا رہتا ہوں
میں تو اپنی بے ہنری پر ناز نہیں کرتا
مجھ میں کچھ ہوگا تو دنیا خود جھک جائے گی
میں نیزے پر سر اپنا افراز نہیں کرتا
وقت کے سارے چکر ہیں یہ عالمؔ جی ورنہ
یہاں کسی کو کوئی نظر انداز نہیں کرتا
غزل
نئے سرے سے کوئی سفر آغاز نہیں کرتا
عالم خورشید