بس ایک ترے خواب سے انکار نہیں ہے
دل ورنہ کسی شے کا طلب گار نہیں ہے
آنکھوں میں حسیں خواب تو ہیں آج بھی لیکن
تعبیر سے اب کوئی سروکار نہیں ہے
دریا سے ابھی تک ہے وہی ربط ہمارا
کشتی میں ہماری کوئی پتوار نہیں ہے
حیرت سے نئے شہر کو میں دیکھ رہا ہوں
دیوار تو ہے سایۂ دیوار نہیں ہے
اس بزم کی رونق تو ذرا غور سے دیکھو
لگتا ہے یہاں کوئی دل آزار نہیں ہے
آئے ہو نمائش میں ذرا دھیان بھی رکھنا
ہر شے جو چمکتی ہے چمکدار نہیں ہے
کیوں اتنا ہمیں اپنی محبت پہ یقیں ہے
دنیا تو محبت کی پرستار نہیں ہے
غزل
بس ایک ترے خواب سے انکار نہیں ہے
عالم خورشید