کیوں آنکھیں بند کر کے رستے میں چل رہا ہوں
کیا میں بھی رفتہ رفتہ پتھر میں ڈھل رہا ہوں
چاروں طرف ہیں شعلے ہم سایے جل رہے ہیں
میں گھر میں بیٹھا بیٹھا بس ہاتھ مل رہا ہوں
میرے دھوئیں سے میری ہر سانس گھٹ رہی ہے
میں راہ کا دیا ہوں اور گھر میں جل رہا ہوں
آنکھوں پہ چھا گیا ہے کوئی طلسم شاید
پلکیں جھپک رہا ہوں منظر بدل رہا ہوں
تبدیلیوں کا نشہ مجھ پر چڑھا ہوا ہے
کپڑے بدل رہا ہوں چہرہ بدل رہا ہوں
اس فیصلے سے خوش ہیں افراد گھر کے سارے
اپنی خوشی سے کب میں گھر سے نکل رہا ہوں
ان پتھروں پہ چلنا آ جائے گا مجھے بھی
ٹھوکر تو کھا رہا ہوں لیکن سنبھل رہا ہوں
کانٹوں پہ جب چلوں گا رفتار تیز ہوگی
پھولوں بھری روش پر بچ بچ کے چل رہا ہوں
چشمے کی طرح عالمؔ اشعار پھوٹتے ہیں
کوہ گراں کی صورت میں بھی ابل رہا ہوں
غزل
کیوں آنکھیں بند کر کے رستے میں چل رہا ہوں
عالم خورشید