EN हिंदी
آفتاب حسین شیاری | شیح شیری

آفتاب حسین شیر

39 شیر

یہ سوچ کر بھی تو اس سے نباہ ہو نہ سکا
کسی سے ہو بھی سکا ہے مرا گزارہ کہیں

آفتاب حسین




ذرا جو فرصت نظارگی میسر ہو
تو ایک پل میں بھی کیا کیا ہے دیکھنے کے لیے

آفتاب حسین




ایک منظر ہے کہ آنکھوں سے سرکتا ہی نہیں
ایک ساعت ہے کہ ساری عمر پر طاری ہوئی

آفتاب حسین




ابھی ہے حسن میں حسن نظر کی کار فرمائی
ابھی سے کیا بتائیں ہم کہ وہ کیسا نکلتا ہے

آفتاب حسین




اپنے ہی دم سے چراغاں ہے وگرنہ آفتابؔ
اک ستارہ بھی مری ویران شاموں میں نہیں

آفتاب حسین




اساس جسم اٹھاؤں نئے سرے سے مگر
یہ سوچتا ہوں کہ مٹی مری خراب تو ہو

آفتاب حسین




عذاب برق و باراں تھا اندھیری رات تھی
رواں تھیں کشتیاں کس شان سے اس جھیل میں

آفتاب حسین




بدل رہے ہیں زمانے کے رنگ کیا کیا دیکھ
نظر اٹھا کہ یہ دنیا ہے دیکھنے کے لیے

آفتاب حسین




چلو کہیں پہ تعلق کی کوئی شکل تو ہو
کسی کے دل میں کسی کی کمی غنیمت ہے

آفتاب حسین