ایک منظر ہے کہ آنکھوں سے سرکتا ہی نہیں
ایک ساعت ہے کہ ساری عمر پر طاری ہوئی
آفتاب حسین
ابھی دلوں کی طنابوں میں سختیاں ہیں بہت
ابھی ہماری دعا میں اثر نہیں آیا
آفتاب حسین
دلوں کے باب میں کیا دخل آفتاب حسینؔ
سو بات پھیل گئی مختصر بناتے ہوئے
آفتاب حسین
دل مضطر وفا کے باب میں یہ جلد بازی کیا
ذرا رک جائیں اور دیکھیں نتیجہ کیا نکلتا ہے
آفتاب حسین
چلو کہیں پہ تعلق کی کوئی شکل تو ہو
کسی کے دل میں کسی کی کمی غنیمت ہے
آفتاب حسین
بدل رہے ہیں زمانے کے رنگ کیا کیا دیکھ
نظر اٹھا کہ یہ دنیا ہے دیکھنے کے لیے
آفتاب حسین
عذاب برق و باراں تھا اندھیری رات تھی
رواں تھیں کشتیاں کس شان سے اس جھیل میں
آفتاب حسین
اساس جسم اٹھاؤں نئے سرے سے مگر
یہ سوچتا ہوں کہ مٹی مری خراب تو ہو
آفتاب حسین
اپنے ہی دم سے چراغاں ہے وگرنہ آفتابؔ
اک ستارہ بھی مری ویران شاموں میں نہیں
آفتاب حسین