اصل حالت کا بیاں ظاہر کے سانچوں میں نہیں
بات جو دل میں ہے میرے میرے لفظوں میں نہیں
اک زمانہ تھا کہ اک دنیا مرے ہم راہ تھی
اور اب دیکھوں تو رستہ بھی نگاہوں میں نہیں
کوئی آسیب بلا ہے شہر پر چھایا ہوا
بوئے آدم زاد تک خالی مکانوں میں نہیں
رفتہ رفتہ سب ہماری راہ پر آتے گئے
بات ہے جو ہم بروں میں اچھے اچھوں میں نہیں
اپنے ہی دم سے چراغاں ہے وگرنہ آفتابؔ
اک ستارہ بھی مری ویران شاموں میں نہیں
غزل
اصل حالت کا بیاں ظاہر کے سانچوں میں نہیں
آفتاب حسین