EN हिंदी
آفتاب حسین شیاری | شیح شیری

آفتاب حسین شیر

39 شیر

دل مضطر وفا کے باب میں یہ جلد بازی کیا
ذرا رک جائیں اور دیکھیں نتیجہ کیا نکلتا ہے

آفتاب حسین




دلوں کے باب میں کیا دخل آفتاب حسینؔ
سو بات پھیل گئی مختصر بناتے ہوئے

آفتاب حسین




دنیا سے علیحدگی کا راستہ
دنیا سے نباہ کر کے دیکھا

آفتاب حسین




ابھی دلوں کی طنابوں میں سختیاں ہیں بہت
ابھی ہماری دعا میں اثر نہیں آیا

آفتاب حسین




فراق موسم کی چلمنوں سے وصال لمحے چمک اٹھیں گے
اداس شاموں میں کاغذ دل پہ گزرے وقتوں کے باب لکھنا

آفتاب حسین




گئے منظروں سے یہ کیا اڑا ہے نگاہ میں
کوئی عکس ہے کہ غبار سا ہے نگاہ میں

آفتاب حسین




گئے زمانوں کی درد کجلائی بھولی بسری کتاب پڑھ کر
جو ہو سکے تم سے آنے والے دنوں کے رنگین خواب لکھنا

آفتاب حسین




حال ہمارا پوچھنے والے
کیا بتلائیں سب اچھا ہے

آفتاب حسین




ہر ایک گام الجھتا ہوں اپنے آپ سے میں
وہ تیر ہوں جو خود اپنی کماں کی زد میں ہے

آفتاب حسین