آگہی میں اک خلا موجود ہے
اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے
ہے یقیناً کچھ مگر واضح نہیں
آپ کی آنکھوں میں کیا موجود ہے
بانکپن میں اور کوئی شے نہیں
سادگی کی انتہا موجود ہے
ہے مکمل بادشاہی کی دلیل
گھر میں گر اک بوریا موجود ہے
شوقیہ کوئی نہیں ہوتا غلط
اس میں کچھ تیری رضا موجود ہے
اس لیے تنہا ہوں میں گرم سفر
قافلے میں رہنما موجود ہے
ہر محبت کی بنا ہے چاشنی
ہر لگن میں مدعا موجود ہے
ہر جگہ ہر شہر ہر اقلیم میں
دھوم ہے اس کی جو ناموجود ہے
جس سے چھپنا چاہتا ہوں میں عدمؔ
وہ ستم گر جا بہ جا موجود ہے
غزل
آگہی میں اک خلا موجود ہے
عبد الحمید عدم