EN हिंदी
عباس تابش شیاری | شیح شیری

عباس تابش شیر

53 شیر

تری محبت میں گمرہی کا عجب نشہ تھا
کہ تجھ تک آتے ہوئے خدا تک پہنچ گئے ہیں

عباس تابش




تو بھی اے شخص کہاں تک مجھے برداشت کرے
بار بار ایک ہی چہرہ نہیں دیکھا جاتا

عباس تابش




ان آنکھوں میں کودنے والو تم کو اتنا دھیان رہے
وہ جھیلیں پایاب ہیں لیکن ان کی تہہ پتھریلی ہے

عباس تابش




وقت لفظوں سے بنائی ہوئی چادر جیسا
اوڑھ لیتا ہوں تو سب خواب ہنر لگتا ہے

عباس تابش




ورنہ کوئی کب گالیاں دیتا ہے کسی کو
یہ اس کا کرم ہے کہ تجھے یاد رہا میں

عباس تابش




یہ موج موج بنی کس کی شکل سی تابشؔ
یہ کون ڈوب کے بھی لہر لہر پھیل گیا

عباس تابش




یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں

عباس تابش




یہ تو اب عشق میں جی لگنے لگا ہے کچھ کچھ
اس طرف پہلے پہل گھیر کے لایا گیا میں

عباس تابش




یہ زمیں تو ہے کسی کاغذی کشتی جیسی
بیٹھ جاتا ہوں اگر بار نہ سمجھا جائے

عباس تابش