گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
عباس تابش
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
عباس تابش
ہم جڑے رہتے تھے آباد مکانوں کی طرح
اب یہ باتیں ہمیں لگتی ہیں فسانوں کی طرح
عباس تابش
ہمارے جیسے وہاں کس شمار میں ہوں گے
کہ جس قطار میں مجنوں کا نام آخری ہے
عباس تابش
آنکھوں تک آ سکی نہ کبھی آنسوؤں کی لہر
یہ قافلہ بھی نقل مکانی میں کھو گیا
عباس تابش
ہجر کو حوصلہ اور وصل کو فرصت درکار
اک محبت کے لیے ایک جوانی کم ہے
عباس تابش
اک محبت ہی پہ موقوف نہیں ہے تابشؔ
کچھ بڑے فیصلے ہو جاتے ہیں نادانی میں
عباس تابش
التجائیں کر کے مانگی تھی محبت کی کسک
بے دلی نے یوں غم نایاب واپس کر دیا
عباس تابش
اس کا مطلب ہے یہاں اب کوئی آئے گا ضرور
دم نکلنا چاہتا ہے خیر مقدم کے لیے
عباس تابش