EN हिंदी
عباس تابش شیاری | شیح شیری

عباس تابش شیر

53 شیر

ہمیں تو اس لیے جائے نماز چاہئے ہے
کہ ہم وجود سے باہر قیام کرتے ہیں

عباس تابش




ہجر کو حوصلہ اور وصل کو فرصت درکار
اک محبت کے لیے ایک جوانی کم ہے

عباس تابش




اک محبت ہی پہ موقوف نہیں ہے تابشؔ
کچھ بڑے فیصلے ہو جاتے ہیں نادانی میں

عباس تابش




التجائیں کر کے مانگی تھی محبت کی کسک
بے دلی نے یوں غم نایاب واپس کر دیا

عباس تابش




اس کا مطلب ہے یہاں اب کوئی آئے گا ضرور
دم نکلنا چاہتا ہے خیر مقدم کے لیے

عباس تابش




عشق کر کے بھی کھل نہیں پایا
تیرا میرا معاملہ کیا ہے

عباس تابش




جھونکے کے ساتھ چھت گئی دستک کے ساتھ در گیا
تازہ ہوا کے شوق میں میرا تو سارا گھر گیا

عباس تابش




خوب اتنا تھا کہ دیوار پکڑ کر نکلا
اس سے ملنے کے لیے صورت سایہ گیا میں

عباس تابش




کچھ تو اپنی گردنیں کج ہیں ہوا کے زور سے
اور کچھ اپنی طبیعت میں اثر مٹی کا ہے

عباس تابش