اکثر ہوا ہے یہ کہ خود اپنی تلاش میں
آگے نکل گئے ہیں حد ماسوا سے بھی
عمر انصاری
باہر باہر سناٹا ہے اندر اندر شور بہت
دل کی گھنی بستی میں یارو آن بسے ہیں چور بہت
عمر انصاری
برا سہی میں پہ نیت بری نہیں میری
مرے گناہ بھی کار ثواب میں لکھنا
عمر انصاری
چلے جو دھوپ میں منزل تھی ان کی
ہمیں تو کھا گیا سایہ شجر کا
عمر انصاری
چھپ کر نہ رہ سکے گا وہ ہم سے کہ اس کو ہم
پہچان لیں گے اس کی کسی اک ادا سے بھی
عمر انصاری
جو تیر آیا گلے مل کے دل سے لوٹ گیا
وہ اپنے فن میں میں اپنے ہنر میں تنہا تھا
عمر انصاری
مسافروں سے محبت کی بات کر لیکن
مسافروں کی محبت کا اعتبار نہ کر
عمر انصاری
طاری ہے ہر طرف جو یہ عالم سکوت کا
طوفاں کا پیش خیمہ سمجھ خامشی نہیں
عمر انصاری
اس اک دئیے سے ہوئے کس قدر دئیے روشن
وہ اک دیا جو کبھی بام و در میں تنہا تھا
عمر انصاری