مجھے مہماں ہی جانو رات بھر کا
دیا ہوں دوستوں میں رہ گزر کا
سناؤں کیا کہ طولانی بہت ہے
فسانہ میری عمر مختصر کا
چلیں کہہ دو ہواؤں سے سنبھل کے
بھرا رکھا ہے ساغر چشم تر کا
چلے جو دھوپ میں منزل تھی ان کی
ہمیں تو کھا گیا سایہ شجر کا
ہٹائے کچھ تو پتھر ٹھوکروں نے
ہوا تو صاف کچھ رستہ سفر کا
جسے دنیا نے بس آنسو ہی جانا
فرستادہ تھا اک دل کے نگر کا
غموں میں کس کو میں ہنسنا سکھاؤں
ملے بھی قدرداں کوئی ہنر کا
یہاں تو فاتح عالم وہی ہے
بدلنا جس کو آ جائے نظر کا
نفاق باہمی ہے جو ابھی تک
کھڑا ہے راستہ روکے عمرؔ کا
غزل
مجھے مہماں ہی جانو رات بھر کا
عمر انصاری