لڑ جاتے ہیں سروں پہ مچلتی قضا سے بھی
ڈرتے نہیں چراغ ہمارے ہوا سے بھی
برسوں رہے ہیں رقص کناں جس زمین پر
پہچانتی نہیں ہمیں آواز پا سے بھی
اب اس کو التفات کہوں میں کہ بے رخی
کچھ کچھ ہیں مہرباں سے بھی کچھ کچھ خفا سے بھی
چھپ کر نہ رہ سکے گا وہ ہم سے کہ اس کو ہم
پہچان لیں گے اس کی کسی اک ادا سے بھی
دل کانپ کانپ اٹھتا ہے عزم گناہ پر
مل جاتی ہے سزا ہمیں پہلے خطا سے بھی
اکثر ہوا ہے یہ کہ خود اپنی تلاش میں
آگے نکل گئے ہیں حد ماسوا سے بھی
غزل
لڑ جاتے ہیں سروں پہ مچلتی قضا سے بھی
عمر انصاری