EN हिंदी
ہیں سارے جرم جب اپنے حساب میں لکھنا | شیح شیری
hain sare jurm jab apne hisab mein likhna

غزل

ہیں سارے جرم جب اپنے حساب میں لکھنا

عمر انصاری

;

ہیں سارے جرم جب اپنے حساب میں لکھنا
سوال یہ ہے کہ پھر کیا جواب میں لکھنا

برا سہی میں پہ نیت بری نہیں میری
مرے گناہ بھی کار ثواب میں لکھنا

رہا سہا بھی سہارا نہ ٹوٹ جائے کہیں
نہ ایسی بات کوئی اضطراب میں لکھنا

یہ اتفاق کہ مانگا تھا ان سے جن کا جواب
وہ باتیں بھول گئے وہ جواب میں لکھنا

ہوا محل میں سجایا تھا تم نے جب دربار
کوئی غریب بھی آیا تھا خواب میں لکھنا

نہ بھولنا کہ عمرؔ ہیں یہ دوستوں کے حساب
کبھی نہ پڑھنا جو دل کی کتاب میں لکھنا