EN हिंदी
باہر باہر سناٹا ہے اندر اندر شور بہت | شیح شیری
bahar bahar sannaTa hai andar andar shor bahut

غزل

باہر باہر سناٹا ہے اندر اندر شور بہت

عمر انصاری

;

باہر باہر سناٹا ہے اندر اندر شور بہت
دل کی گھنی بستی میں یارو آن بسے ہیں چور بہت

یاد اب اس کی آ نہ سکے گی سوچ کے یہ بیٹھے تھے کہ بس
کھل گئے دل کے سارے دریچے تھا جو ہوا کا زور بہت

موجیں ہی پتوار بنیں گی طوفاں پار لگائے گا
دریا کے ہیں بس دو ساحل کشتی کے ہیں چھور بہت

میں بھی اپنی جھونک میں تھا کچھ وہ بھی اپنے زعم میں تھا
ہوتی بھی ہے کچھ مرے یارو پیار کی کچھ ڈور بہت

فصل خزاں تو سہہ لی لیکن موسم گل میں ٹوٹ گری
بوجھ پھلوں کا سہہ نہیں پائی شاخ کہ تھی کمزور بہت

دل سے اٹھا طوفان یہ کیسا سارے منظر ڈوب گئے
ورنہ ابھی تو اس جنگل میں ناچ رہے تھے مور بہت

برسوں بعد ملا ہے موقع آؤ لگا لیں کشتی پار
آج تو یارو سناٹا ہے دریا کے اس اور بہت

آج یقیناً مینہ برسے گا آج گرے گی برق ضرور
انکھیاں بھی پر شور بہت ہیں کجرا بھی گھنگھور بہت

کس سے کس کا ساتھی چھوٹا کس کا عمر کیا حال ہوا
پربت پربت وادی وادی رات مچا تھا شور بہت