اکثر مرے شعروں کی ثنا کرتے رہے ہیں
وہ لوگ جو غالب کے طرفدار نہیں ہیں
تالیف حیدر
انکار بھی کرنے کا بہانہ نہیں ملتا
اقرار بھی کرنے کا مزا دیکھ رہے ہیں
تالیف حیدر
اس طرح تجھے عشق کیا ہے کہ یہ دنیا
ہم کو ہی کہیں عشق کا حاصل نہ بنا دے
تالیف حیدر
خرد نہیں ہے یہاں بس جنون کا سودا
ہم اس جنون سے آگے مکاں بناتے ہیں
تالیف حیدر
خدا وجود میں ہے آدمی کے ہونے سے
اور آدمی کا تسلسل خدا سے قائم ہے
تالیف حیدر
کس کی آنکھوں کا نشہ ہے کہ مرے ہونٹوں کو
اس قدر تر نہیں کر سکتی بلا نوشی بھی
تالیف حیدر
سفر ہی بس کار زندگی ہے
عذاب کیا ہے ثواب کیا ہے
تالیف حیدر
تو کیوں اس بار اس نے میرے آگے سر جھکایا ہے
اسے تو آج بھی مشکل نہ تھا انکار کر دینا
تالیف حیدر
اسے کہاں ہمیں قیدی بنا کے رکھنا تھا
ہمیں کو شوق نہیں تھا کبھی رہائی کا
تالیف حیدر