آہستہ روی شہر کو کاہل نہ بنا دے
خاموشئ غم خواب کا مائل نہ بنا دے
اتنا بھی محبت کو نہ سوچے مری ہستی
یہ معجزۂ فکر کہیں دل نہ بنا دے
عیسیٰ نہیں پھر بھی مجھے اندیشہ ہے خود سے
ہستی مری کچھ شعبدۂ گل نہ بنا دے
اس طرح تجھے عشق کیا ہے کہ یہ دنیا
ہم کو ہی کہیں عشق کا حاصل نہ بنا دے
میں اس سے سمندر ہی کوئی مانگتا لیکن
ڈر تھا وہ کہیں پھر کوئی ساحل نہ بنا دے
غزل
آہستہ روی شہر کو کاہل نہ بنا دے
تالیف حیدر