ہم ہجر کے رستوں کی ہوا دیکھ رہے ہیں
منزل سے پرے دشت بلا دیکھ رہے ہیں
اس شہر میں احساس کی دیوی نہیں رہتی
ہر شخص کے چہرے کو نیا دیکھ رہے ہیں
انکار بھی کرنے کا بہانہ نہیں ملتا
اقرار بھی کرنے کا مزا دیکھ رہے ہیں
تو ہے بھی نہیں اور نکلتا بھی نہیں ہے
ہم خود کو رگ جاں کے سوا دیکھ رہے ہیں
کچھ کہہ کے گزر جائے گا اس بار زمانہ
ہم اس کے تبسم کی صدا دیکھ رہے ہیں
غزل
ہم ہجر کے رستوں کی ہوا دیکھ رہے ہیں
تالیف حیدر