EN हिंदी
نہ بے کلی کا ہنر ہے نہ جاں فزائی کا | شیح شیری
na be-kali ka hunar hai na jaan-fazai ka

غزل

نہ بے کلی کا ہنر ہے نہ جاں فزائی کا

تالیف حیدر

;

نہ بے کلی کا ہنر ہے نہ جاں فزائی کا
ہمیں تو شوق ہے بس یوں ہی نے نوائی کا

جب اس کو جاننے نکلے تو کچھ نہیں جانا
خدا سے ہم کو بھی دعویٰ تھا آشنائی کا

رہ حیات میں کوئی نہیں تو کیا شکوہ
ہمیں گلہ ہے تو بس اپنی بے وفائی کا

ہماری آنکھوں سے شبنم ٹپک رہی ہے ابھی
یہی تو وقت ہے اس گل کی رونمائی کا

اسے کہاں ہمیں قیدی بنا کے رکھنا تھا
ہمیں کو شوق نہیں تھا کبھی رہائی کا