نہ بے کلی کا ہنر ہے نہ جاں فزائی کا
ہمیں تو شوق ہے بس یوں ہی نے نوائی کا
جب اس کو جاننے نکلے تو کچھ نہیں جانا
خدا سے ہم کو بھی دعویٰ تھا آشنائی کا
رہ حیات میں کوئی نہیں تو کیا شکوہ
ہمیں گلہ ہے تو بس اپنی بے وفائی کا
ہماری آنکھوں سے شبنم ٹپک رہی ہے ابھی
یہی تو وقت ہے اس گل کی رونمائی کا
اسے کہاں ہمیں قیدی بنا کے رکھنا تھا
ہمیں کو شوق نہیں تھا کبھی رہائی کا

غزل
نہ بے کلی کا ہنر ہے نہ جاں فزائی کا
تالیف حیدر