یوں بھی تو تری راہ کی دیوار نہیں ہیں
ہم حسن طلب عشق کے بیمار نہیں ہیں
یا تجھ کو نہیں قدر ہم آشفتہ سروں کی
یا ہم ہی محبت کے سزاوار نہیں ہیں
کیا حاصل کار غم الفت ہے کہ مجنوں
اب دشت نوردی کو بھی تیار نہیں ہیں
اکثر مرے شعروں کی ثنا کرتے رہے ہیں
وہ لوگ جو غالب کے طرفدار نہیں ہیں
اب تجھ کو سلام اے غم جاناں کہ جہاں میں
کیا ہم سے دیوانوں کے خریدار نہیں ہیں
پھر تجھ سے جدا ہو کے کہیں خود سے بچھڑ جائیں
ہم لوگ کچھ ایسے بھی دل آزار نہیں ہیں
غزل
یوں بھی تو تری راہ کی دیوار نہیں ہیں
تالیف حیدر