فرصت میں رہا کرتے ہیں فرصت سے زیادہ
مصروف ہیں ہم لوگ ضرورت سے زیادہ
سلطان اختر
ہماری سادہ مزاجی پہ رشک کرتے ہیں
وہ سادہ پوش جو بے انتہا رنگیلے ہیں
سلطان اختر
ہر ایک داستاں تجھ سے شروع ہوتی ہے
ہر ایک قصہ ترے نام پر تمام ہوا
سلطان اختر
کسی کے واسطے جیتا ہے اب نہ مرتا ہے
ہر آدمی یہاں اپنا طواف کرتا ہے
سلطان اختر
میں وہ صحرا جسے پانی کی ہوس لے ڈوبی
تو وہ بادل جو کبھی ٹوٹ کے برسا ہی نہیں
سلطان اختر
پھر بھی ہم لوگ وہاں جیتے ہیں جینے کی طرح
موسم قہر جہاں ٹھہرا ہوا رہتا ہے
سلطان اختر
سامنے آنکھوں کے پھر یخ بستہ منظر آئے گا
دھوپ جم جائے گی آنگن میں دسمبر آئے گا
سلطان اختر
سب کے ہونٹوں پہ منور ہیں ہمارے قصے
اور ہم اپنی کہانی بھی نہیں جانتے ہیں
سلطان اختر
سفر سفر مرے قدموں سے جگمگایا ہوا
طرف طرف ہے مری خاک جستجو روشن
سلطان اختر