برائے نام سہی دن کے ہاتھ پیلے ہیں
کہیں کہیں پہ ابھی روشنی کے ٹیلے ہیں
تمام رات مرے غم کا زہر چوسا ہے
اسی لیے تری یادوں کے ہونٹ نیلے ہیں
ہمارے ضبط کی دیوار آہنی نہ سہی
تمہارے طنز کے نیزے کہاں نکیلے ہیں
انہیں بھی آج کی تہذیب چاٹ جائے گی
کہیں کہیں پہ جو سمٹے ہوئے قبیلے ہیں
ہر ایک شخص ہے پیغمبرانہ سوچ میں غرق
حصول زیست کے شاید یہی وسیلے ہیں
ہماری سادہ مزاجی پہ رشک کرتے ہیں
وہ سادہ پوش جو بے انتہا رنگیلے ہیں
بدن کا لوچ لبوں کی مٹھاس قرب کا لمس
تصورات کے سب ذائقے رسیلے ہیں
خلوص دل سے سماعت کا امتحان تو لو
غم حیات کے نغمے بڑے سریلے ہیں
غزل
برائے نام سہی دن کے ہاتھ پیلے ہیں
سلطان اختر