طلسم خانۂ دل میں ہے چار سو روشن
مری نگاہ کے ظلمت کدے میں تو روشن
بہت دنوں پہ ہوئی ہے رگ گلو روشن
سناں کی نوک پہ ہو جائے پھر لہو روشن
تمام رات میں ظلمات انتظار میں تھا
تمام رات تھا مہتاب آرزو روشن
میں اپنے آپ سے ہی جنگ کرتا رہتا ہوں
کہ مجھ پہ ہوتا نہیں اب مرا عدو روشن
عجیب شور منور دل و دماغ میں ہے
مرے لہو میں ہے لیکن صدائے ہو روشن
سفر سفر مرے قدموں سے جگمگایا ہوا
طرف طرف ہے مری خاک جستجو روشن
بہار آئی تو آنکھوں میں خاک اڑنے لگی
نہ کوئی پھول کھلا اور نہ رنگ و بو روشن
میں تیرگی کے سمندر میں ڈوب جاتا ہوں
وہ جب بھی ہوتا ہے اب میرے روبرو روشن
یہ اور بات کہ اخترؔ حویلیاں نہ رہیں
کھنڈر میں کم تو نہیں اپنی آبرو روشن
غزل
طلسم خانۂ دل میں ہے چار سو روشن
سلطان اختر