در بہ در کی خاک پیشانی پہ مل کر آئے گا
گھوم پھر کر راستہ پھر میرے ہی گھر آئے گا
سامنے آنکھوں کے پھر یخ بستہ منظر آئے گا
دھوپ جم جائے گی آنگن میں دسمبر آئے گا
شور کیسا اپنی آہٹ بھی نہ سن پاؤ گے تم
اس سفر میں ایسا سناٹا تو اکثر آئے گا
جس کی خاطر شیشۂ آواز روشن ہے بہت
اس کی جانب سے بھی خاموشی کا پتھر آئے گا
صحن دل میں کب سے تنہائی کے خیمے نصب ہیں
اب نہ شاید موسم ہنگامہ پرور آئے گا
زندگی بھر ہم اسی امید پر چلتے رہے
اب کے صحرا پار کر لیں تو سمندر آئے گا
منہدم ہو جائے گی اخترؔ فصیل انتشار
جب نواح جاں میں ویرانی کا لشکر آئے گا
غزل
در بہ در کی خاک پیشانی پہ مل کر آئے گا
سلطان اختر