طلسم کار جہاں کا اثر تمام ہوا
کہ خاک بیٹھ گئی اب سفر تمام ہوا
بس اک سکوت بکھرتا ہوا ہے چاروں طرف
ہر ایک معرکۂ خیر و شر تمام ہوا
کہیں سکوں نہ ملا عشق سے فرار کے بعد
کسی طرح نہ مرا درد سر تمام ہوا
گھروں میں ڈھلتی ہوئی رات تھک کے بیٹھ گئی
کہ اب فسانۂ دیوار و در تمام ہوا
سب اپنی اپنی خبر لے رہے ہیں وقت زوال
دلوں سے بے خبری کا اثر تمام ہوا
پھر اس کے رو بہ رو ہم دل کی بات کہہ نہ سکے
ہمارا حوصلہ بار دگر تمام ہوا
ہر ایک داستاں تجھ سے شروع ہوتی ہے
ہر ایک قصہ ترے نام پر تمام ہوا
نہ کوئی بات مکمل ہوئی مری اخترؔ
نہ کوئی کام مرا سر بہ سر تمام ہوا
غزل
طلسم کار جہاں کا اثر تمام ہوا
سلطان اختر