کسی کے واسطے جیتا ہے اب نہ مرتا ہے
ہر آدمی یہاں اپنا طواف کرتا ہے
سب اپنی اپنی نگاہیں سمیٹ لیتے ہیں
وہ خوش لباس سر شام جب بکھرتا ہے
میں جس کی راہ میں ہر شب دئیے جلاتا ہوں
وہ ماہتاب زمیں پر کہاں اترتا ہے
ہمارا دل بھی ہے ویراں حویلیوں کی طرح
تمام رات یہاں کوئی آہ بھرتا ہے
میں اس کے نقش کف پا بھی چھو نہیں سکتا
وہ تیز گام ہواؤں کے پر کترتا ہے
نہ بام آرزو روشن نہ سائبان طلب
سرائے دل میں کہاں کوئی اب ٹھہرتا ہے
سب اپنے آپ سے خائف ہیں ان دنوں اخترؔ
ہر ایک شخص یہاں آئینے سے ڈرتا ہے
غزل
کسی کے واسطے جیتا ہے اب نہ مرتا ہے
سلطان اختر