EN हिंदी
جھوٹ روشن ہے کہ سچائی نہیں جانتے ہیں | شیح شیری
jhuT raushan hai ki sachchai nahin jaante hain

غزل

جھوٹ روشن ہے کہ سچائی نہیں جانتے ہیں

سلطان اختر

;

جھوٹ روشن ہے کہ سچائی نہیں جانتے ہیں
لوگ اب وہم و گماں کو ہی یقیں جانتے ہیں

یہ الگ بات کہ آتی نہیں دنیا داری
اہل دنیا کو مگر گوشہ نشیں جانتے ہیں

طاق و محراب کا رونا ہو کہ دیوار کا غم
بام و در پر جو گزرتی ہے مکیں جانتے ہیں

ورق دل پہ ابھی نقش ہے شب نامۂ غم
پھر بھی ہر صبح کو ہم صبح حسیں جانتے ہیں

جھک کے ملتے تو ہیں وہ خاک نشینوں سے مگر
آسماں والوں کو ہم اہل زمیں جانتے ہیں

سب کے ہونٹوں پہ منور ہیں ہمارے قصے
اور ہم اپنی کہانی بھی نہیں جانتے ہیں

کوئی در قابل تعظیم نظر تو آئے
سر جھکانا ہے کہاں اہل جبیں جانتے ہیں