فرصت میں رہا کرتے ہیں فرصت سے زیادہ
مصروف ہیں ہم لوگ ضرورت سے زیادہ
ملتا ہے سکوں مجھ کو قناعت سے زیادہ
مسرور ہوں میں اپنی مسرت سے زیادہ
چلتا ہی نہیں دانش و حکمت سے کوئی کام
بنتی ہے یہاں بات حماقت سے زیادہ
تنہا میں ہراساں نہیں اس کار جنوں میں
صحرا ہے پریشاں مری وحشت سے زیادہ
اب کوئی بھی سچائی مرے ساتھ نہیں ہے
یعنی میں گنہ گار ہوں تہمت سے زیادہ
اس ریگ رواں کو میں سمیٹوں بھی کہاں تک
بکھرا ہے وہ ہر سو مری وسعت سے زیادہ
روشن ہے بہت جھوٹ مرے عہد میں اخترؔ
افسانہ منور ہے حقیقت سے زیادہ
غزل
فرصت میں رہا کرتے ہیں فرصت سے زیادہ
سلطان اختر